ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ساحلی خبریں / تلنگانہ: موموز کھانے سے ایک خاتون ہلاک، 50 افراد اسپتال میں داخل

تلنگانہ: موموز کھانے سے ایک خاتون ہلاک، 50 افراد اسپتال میں داخل

Tue, 29 Oct 2024 17:45:32  SO Admin   S.O. News Service

حیدر آباد، 29/اکتوبر (ایس او نیوز /ایجنسی) تلنگانہ کے حیدر آباد میں بنجارا ہلس کے ایک فوڈ اسٹال پر موموز کھانے کے باعث ایک خاتون کی موت واقع ہو گئی، جبکہ تقریباً 50 افراد کی طبیعت خراب ہونے کے بعد انہیں اسپتال منتقل کیا گیا۔ سڑک کنارے قائم اس فوڈ اسٹال سے کھانا کھانے کے بعد متعدد لوگوں میں متلی اور دیگر علامات ظاہر ہونے لگیں۔ زیادہ تر متاثرہ افراد کو ابتدائی علاج کے بعد اسپتال سے چھٹی دے دی گئی ہے، جبکہ واقعے کی مکمل تحقیقات کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق 27 اکتوبر کو 31 سالہ ریشما بیگم، ان کے بچے اور سگدکنتا بستی کے کئی لوگ گھومنے نکلے تھے۔ انھوں نے ایک اسٹال سے موموز کھائے۔ اگلے دن، یعنی 28 اکتوبر کو انھیں الٹی اور دست کی شکایت ہوئی۔ وہ فوراً اسپتال پہنچے اور ساتھ ہی کچھ متاثرین نے پولیس میں شکایت بھی درج کرا دی۔ انھوں نے پولیس کو بتایا کہ سبھی لوگوں نے اتوار کو سڑک کنارے ایک فوڈ اسٹال پر موموز کھایا تھا جس کے بعد سے ہی ان کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔ پولیس نے معاملہ درج کر جانچ شروع کر دی ہے اور 2 لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ ریشما بیگم کی حالت جب سنگین ہو گئی تو انھیں نظام انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں لے جایا گیا جہاں علاج کے دوران ان کی موت ہو گئی۔ پولیس افسران کو اندیشہ ہے کہ موموز کے علاوہ میونیز اور چٹی کی وجہ سے بھی لوگوں کو فوڈ پوائزننگ ہو سکتی ہے۔ پولیس نے بتایا کہ موموز کھانے کے بعد ریشما اور ان کی 12 و 14 سال کی بیٹیوں کی بھی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ انھوں نے اس بات کو پہلے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ انھیں لگا کہ تھوڑا آرام کرنے سے ٹھیک ہو جائے گا، لیکن جب طبیعت زیادہ بگڑنے لگی تو اسپتال کا رخ کیا گیا۔

تحقیقات کے دوران پولیس کو پتہ چلا کہ آس پاس کے علاقوں میں بھی کم از کم 20 دیگر باشندوں کو فوڈ پوائزننگ کے سبب اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ سبھی نے اسی اسٹال سے موموز کھائے تھے۔ فوڈ سیکورٹی افسران نے جب جانچ کی تو پتہ چلا کہ اسٹال ایف ایس ایس اے آئی لائسنس کے بغیر چلایا جا رہا تھا اور کھانا گندی حالت میں بنایا جا رہا تھا۔


Share: